یہ مضمون خاص طور پر آئی ٹی، کمپیوٹر سائنس اور روبوٹ کی سائنس میں دلچسپی رکھنے والے ان طلباء کے لئے لکھا گیا ہے جو مستقبل میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کے اس ایریا میں کام کرنا چاہتے ہیں جس کا تعلق سپیچ ریکوگنیشن اور ٹرانسلیشن سے ہے یعنی مشین کے انسانی گفتگو کو سمجھنے اور اسے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے سے تعلق ہے کیونکہ اب تک اس میدان میں جتنا بھی کام ہؤا ہے وہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ ناقص بھی ہے۔
لہذا اس مضمون میں اردو زبان کے زبر زیر پیش کے اصولوں میں کچھ خامیوں کو دور کرنے یعنی ان خامیوں کا حل پیش کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے مگر پہلے کچھ مثالیں دے کر ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ در اصل وہ خامیاں ہیں کیا
چنانچہ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبر کی خامی کی مثال:
میرے بھانجے کا نام احسن ہے مطلب یہ کہ نام کے پہلے حرف یعنی الف پر زبر ہے تاہم ہم پاکستانی لوگ اس زبر کو مجہول سٹائل سے پڑھتے ہیں یعنی ایحسن کہہ کر پڑھتے ہیں جبکہ اسی نام کو عرب لوگ معروف سٹائل سے پڑھتے ہیں چنانچہ یوں لگتا ہے جیسے آحسن بول رہے ہوں
چنانچہ اس کا حل یہ نکالا کہ عربوں والی آواز دینے والی زبر کی شکل کو تو نہیں بدلا البتہ پاکستانی آواز کے لئے زبر کی شکل میں ایک تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے
اور وہ یہ کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عربوں والی زبر کی شکل اس انداز سے ہوتی ہے جیسے گھڑی کی منٹ والی سوئی گھڑی میں دس منٹ والے مقام پر ترچھے انداز میں ہوتی ہے
پس ہم نے تجویز یہ پیش کی ہے کہ پاکستانی آواز کی نمائندگی کرنے والی زبر کی شکل اس انداز میں ہونی چاہیئے جیسا کہ گھڑی کی سوئی بیس منٹ والے مقام پر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر کی خامی کی مثال:
زیر کی خامی کی مثال کو سمجھنے کے لئے دو الگ طرح کے جملوں میں استعمال ہونے والے مگر بظاہر ایک جیسے دکھائی دینے والے لفظ پر غور کریں
پہلا جملہ:
میں نے سارا مال (بیچ) دیا
دوسرا جملہ:
چڑیا دو شاخوں کے (بیچ) میں بیٹھی ہے
چنانچہ پہلے جملے میں جو لفظ (بیچ) استعمال ہؤا ہے اس کے پہلے حرف یعنی بے کے نیچے جو زیر ہے اس کی آواز مجہول ہے یعنی پاکستانی سٹائل والی ہے
جبکہ دوسرے جملے میں استعمال ہونے والے (بیچ) لفظ کے پہلے حرف یعنی بے کے نیچے جو زیر ہے اس کی آواز معروف ہے یعنی عرب سٹائل والی ہے
چنانچہ ہم نے مجہول یعنی پاکستانی سٹائل والی زیر کی شکل کو بدلنے کے لئے بالکل وہی فارمولا تجویز کیا ہے جو اس سے پہلے ہم نے مجہول زبر کے معاملے میں تجویز کیا تھا یعنی جیسا کہ منٹ والی گھڑی کو گھما کر دس منٹ والے مقام سے آگے کر کے بیس منٹ والے مقام پر کر دیا جاتا ہے اس طرح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیش کی خامی کی مثال:
پیش کی خامی کی مثال کو سمجھنے کے لئے بھی دو الگ طرح کے جملوں میں استعمال ہونے والے مگر بظاہر ایک جیسے دکھائی دینے والے لفظ پر غور کریں
پہلا جملہ:
گھر کا سارا مال (چور) لے اڑے
دوسرا جملہ:
میں تھکن سے (چور) ہو گیا
چنانچہ پہلے جملے میں جو لفظ (چور) استعمال ہؤا ہے اس کے پہلے حرف یعنی چے کے اوپر جو پیش ہے اس کی آواز مجہول ہے یعنی پاکستانی سٹائل والی ہے
جبکہ دوسرے جملے میں استعمال ہونے والے (چور) لفظ کے پہلے حرف یعنی چے کے اوپر جو پیش ہے اس کی آواز معروف ہے یعنی عرب سٹائل والی ہے
چنانچہ ہم نے مجہول یعنی پاکستانی سٹائل والی زیر کی شکل کو بدلنے کے لئے بالکل وہی فارمولا تجویز کیا ہے جو اس سے پہلے ہم نے مجہول زبر اور زیر کے معاملے میں تجویز کیا تھا یعنی جیسا کہ منٹ والی گھڑی کو گھما کر دس منٹ والے مقام سے آگے کر کے بیس منٹ والے مقام پر کر دیا جاتا ہے ویسے۔
نوٹ کیجیئے کہ آئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں سپیچ ریکوگنیشن یعنی مشین کے انسانی گفتگو کو سمجھنے اور پھر اسے کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنے میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں
اور اسی طرح ٹیکسٹ ٹو سپیچ کنورژن میں بھی جو نقائص پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد پر شدت سے کسی ایسی زبان کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو سپیلنگ رولز یعنی ہجاء کے قوانین کی اغلاط سے پاک ہو
تاکہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس زبان کو بطور برج یعنی پل کے طور پر استعمال کیا جا سکے پس خوش قسمتی سے وہ زبان اردو ہے
چنانچہ مثال کے طور پر پیشِ خدمت ہے انگریزی زبان کا لکھا ہؤا ایک جملہ مگر انگریزی حروف کے ذریعے نہیں بلکہ اردو حروف کو استعمال کرتے ہوئے
اور وہ جملہ یہ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دِس اِز اے بُک ۔۔۔۔
ترجمہ ۔۔۔۔ یہ ایک کتاب ہے ۔۔۔۔
علیٰ ہذالقیاس دنیا کی تمام زبانوں کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لئے اردو زبان کو بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ میری مہارتوں کے شعبہ جات بھی ٹیکنالوجی کی انہی جہات سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ اس ضمن میں میری خدمات حاضرِ خدمت ہیں۔
یہ مقام بڑے شکر کا ہے کہ اردو زبان میں انگریزی کی طرح ہجاء کے قوانین یعنی سپیلنگ رولز میں اغلاط کی بھرمار نہیں ہے تاہم جو اکا دکا خامیاں ہیں میں نے ان کا حل نکال دیا ہے جس کا ذکر اوپر مضمون کی نص میں کر دیا گیا ہے۔
Comments
Post a Comment